غزل ہلکے ہلکے بہنے والا پانی دریا بن جاتا ہے منزل کی جانب نکلیں تو خود ہی رستہ بن جاتا ہے ۔ میں اور تم جب بھی ہنستے ہیں دیکھ کے اک دوجے کی جانب وہ جو تمہاری کچھ لگتی ہے اسکا چہرہ بن جاتا ہے۔ یا تو دماغی خلل ہے میرا یا پھر رات کی سازش ہے دو پل جب بھی چاند کو دیکھوں انکا خاکہ بن جاتا ہے۔ میں نے تو سچ ہی بولا ہے تیری مرضی مان نہ مان قسمیں وسمیں کھانے سے بھی بندہ جھوٹا بن جاتا ہے ۔ پیار کا بندھن کچھ نہیں ہوتا یہ سب اک سمجھوتا ہے ساتھ نبھانا ڈھونگ رچانا عمر کا حصہ بن جاتا ہے ۔ شاعر بھی پاگل ہوتے ہیں…
Follow Us