شب بھر اشک بہانے سے کیا کوئ اپنا بن جاتا ہے


kia-ashk-bahany-say-koi-apna-ban-jata-hai


غزل


ہلکے ہلکے بہنے والا پانی دریا بن جاتا ہے
منزل کی جانب نکلیں تو خود ہی رستہ بن جاتا ہے ۔

میں اور تم جب بھی ہنستے ہیں دیکھ کے اک دوجے کی جانب 
وہ جو  تمہاری کچھ لگتی ہے اسکا چہرہ بن جاتا ہے۔

یا تو دماغی خلل ہے میرا یا پھر رات کی سازش ہے
دو پل جب بھی چاند کو دیکھوں انکا خاکہ بن جاتا ہے۔

میں نے تو سچ ہی بولا ہے تیری مرضی مان نہ مان
قسمیں وسمیں کھانے سے بھی بندہ جھوٹا بن جاتا ہے ۔

پیار کا بندھن کچھ نہیں ہوتا یہ سب اک سمجھوتا ہے 
ساتھ نبھانا ڈھونگ رچانا عمر کا حصہ بن جاتا ہے ۔

شاعر بھی پاگل ہوتے ہیں ہاں ہاں میں بھی شاعر ہوں
ساون میں پورے طبقے کی جان کا خطرہ بن جاتا ہے۔

ماہ رخ زیدی تم بھی بالکل ناداں ہو دیوانی ہو
شب بھر اشک بہانے سے کیا کوئ اپنا بن جاتا ہے۔

ماہ رخ زیدی

Post a Comment

0 Comments