بے نشان یہ ضرورتوں کے رشتے یہ بناوٹی محبت یہ رواروی کی دنیا جہاں ہر نگاہ نشتر جہاں لفظ تازیانے یہاں پیار ایک ناٹک جیوں بھی تو کس بہانے ہے وباء کی موت اچھی کوئی شکل ہی نہ دیکھے نہ گلے لگا کے روۓ نہ نئے لباس پہنے کوئی تعزیت کو آۓ نہ ہی گٹھلیوں کا جھنجھٹ نہ عذاب غسل و میت کوئی چار لوگ آئیں کسی بے نشاں جگہ پر میری بے نشان ہستی کا ہر اک نشاں مٹا دیں ماہ رخ زیدی
کچھ اشعار مارخ زیدی کی ڈائری سے وقت گزرا تو گزر آۓ ہر اک مشکل سے وہ محبت جو چھپا رکھی تھی دل میں نہ رہی تیرے ابرو کے خدو خال نے آزاد کیا وہ جو دلچسپی تھی رخسار کے تل میں نہ رہی آج کا ٹا ہے میرا فون ترسنا کل سے میرے نمبر سے تمھیں کال نہیں آۓ گی اس قدر جاگے ہوئے تھے ہجر میں وصل کی شب صبح تک سوتے رہے۔
نظم میں بھی اب وہ نہیں رہا لیکن تمُ کو تو وقت کھا گیا جیسے یا کسی حادثے نے مار دیا یا کسی بےرحم نے لوٹ لیا نہ وہ ابرو نہ وہ سیاہ زلفیں جن پہ مرتی تھی شب اماوس کی نہ وہ آنکھیں جو ٹمٹماتی تھیں دیکھ کر مجھکو ڈوب جاتی تھیں نہ وہ ہونٹوں میں اب رہی سرخی نہ وہ باتوں میں اب بچی شوخی چال میں بھی عجب تھکاوٹ ہے مسکراہٹ میں بھی ملاوٹ ہے وسوسے مجھکو مارے جاتے ہیں جانے کیا کیا خیال آتے ہیں کیا کسی نے دیا ہے زخم تمھیں یا کہ تقدیر کی ستائی ہو سچ بتاؤ کہاں تھیں اب تک تم شچ بتاؤ کہاں سے آئی ہ…
غزل ہلکے ہلکے بہنے والا پانی دریا بن جاتا ہے منزل کی جانب نکلیں تو خود ہی رستہ بن جاتا ہے ۔ میں اور تم جب بھی ہنستے ہیں دیکھ کے اک دوجے کی جانب وہ جو تمہاری کچھ لگتی ہے اسکا چہرہ بن جاتا ہے۔ یا تو دماغی خلل ہے میرا یا پھر رات کی سازش ہے دو پل جب بھی چاند کو دیکھوں انکا خاکہ بن جاتا ہے۔ میں نے تو سچ ہی بولا ہے تیری مرضی مان نہ مان قسمیں وسمیں کھانے سے بھی بندہ جھوٹا بن جاتا ہے ۔ پیار کا بندھن کچھ نہیں ہوتا یہ سب اک سمجھوتا ہے ساتھ نبھانا ڈھونگ رچانا عمر کا حصہ بن جاتا ہے ۔ شاعر بھی پاگل ہوتے ہیں…
غزل معاملہ شک نہیں یقین کا ہے سانپ میری ہی آستین کا ہے نا تو پانی کا نہ ہواؤں کا آدمی جانور زمین کا ہے ۔ میں کسی اور کی پری وِش ہوں وہ کسی اور ماہ جبین کا ہے ۔ روٹی ،کپڑا، مکان کے نعرے اب بھی جھگڑا تو صرف تین کا ہے ۔ وہ سپیرا ہی اسکو پکڑے گا سانپ دیوانہ جسکی بین کا ہے ۔ گھر خدا کا دلیل ہے خود ہی ہے مکاں تو کسی مکین کا ہے ۔ لومیناتی (luminati)تو اس جہان کے ہیں میرا مولا تو عالمین کا ہے ۔ میں تو ح حق کی بات کرتی ہوں شک میں سارا شرر ہی ش کا ہے ۔ ما ہ رخ یوں تو ہوں میں سادہ…
غزل سب محبت کی چال بازی ہے جسم زخمی ہے روح راضی ہے میری برباد یوں کی قصے میں آپکی بھی کرم نوازی ہے ہوگئے کیوں نفی میں ہم تقسیم یہ جمع خرچ بس ریاضی ہے ہم تو تھا ، تھے بھی کر نہیں سکتے حال جیسا ہے ویسا ماضی ہے چوٹ جو دل پہ کھائی تھی ما ہ رخ اب بھی گہری ہے اور تازی ہے ۔ ما ہ ر خ زیدی
غزل جو میرا تھا ہی نہیں اس سے نبھانا کیا تھا روٹھنا کیا تھا میرا اسکا منانا کیا تھا کوئی احساس تعلق میں کہیں تھا ہی نہیں روگ تھا روگ اسے جوگ بنانا کیا تھا جہاں الفاظ کے نشتر ہی بنیں ایزا رساں زخم دینے کو وہاں۔ ہاتھ اٹھانا کیا تھا وہ مجھے لینے بھی آتا تو نہ جاتی ہر گز چھوڑے گاؤں کی طرف لوٹ کے جانا کیا تھا رو برو رہ کے جو قائل نہیں کر پایا تھا ایسے انسان کا پھر فون اٹھانا کیا تھا ہر خسارہ میری قسمت سے جڑا تھا ما ہ ر خ پھر محبت کی تجارت میں کمانا کیا تھا ما ہ رخ زیدی
میرے پاس لوٹ آۓ غم زندگی سے کہنا کہ کسی کو نہ ستاۓ میرے پاس لوٹ آۓ ۔ یہ زمیں میری نہیں ہے یہ جہاں میرا نہیں ہے میرا کوئی یاں نہیں ہے مجھے چھوڑ کر نہ جائے غم زندگی سے کہنا میرے پاس لوٹ آۓ ۔ کسی سے نہیں کہا ہے جو ستم ہوا سہا ہے جو ملا وہ بےوفا ہے تو میرا ہے سب پراۓ غم زندگی سے کہنا کہ نہ اور آزماۓ میرے پاس لوٹ آۓ ۔ جو یہ رات ڈھل گئی تو جو یہ رت بدل گئی تو میری جاں نکل گئی تو کوئی ہو جا لاش اٹھاۓ غم زندگی سے کہنا کہ یہ فرض بھی نبھاۓ میرے پاس لوٹ آۓ ۔ ماہ رخ زیدی…
Follow Us