غزل
معاملہ شک نہیں یقین کا ہے
سانپ میری ہی آستین کا ہے
نا تو پانی کا نہ ہواؤں کا
آدمی جانور زمین کا ہے ۔
میں کسی اور کی پری وِش ہوں
وہ کسی اور ماہ جبین کا ہے ۔
روٹی ،کپڑا، مکان کے نعرے
اب بھی جھگڑا تو صرف تین کا ہے ۔
وہ سپیرا ہی اسکو پکڑے گا
سانپ دیوانہ جسکی بین کا ہے ۔
گھر خدا کا دلیل ہے خود ہی
ہے مکاں تو کسی مکین کا ہے ۔
لومیناتی (luminati)تو اس جہان کے ہیں
میرا مولا تو عالمین کا ہے ۔
میں تو ح حق کی بات کرتی ہوں
شک میں سارا شرر ہی ش کا ہے ۔
ما ہ رخ یوں تو ہوں میں سادہ سی
نام جیسے کسی حسین کا ہے ۔
ماہ رخ زیدی
3 Comments
جیتی رھو خوش رھو
ReplyDeleteU r an amazing poet. Mashaa ALLAH
ReplyDeleteNiceee
ReplyDeleteWe Love and Respect you a lot so please do not enter any spam link in the comment box.